مانسہرہ:کنگ عبداللہ ہسپتال مردوں کا شمشان گھاٹ بن گیا، غفلت کے مرتکب ڈاکٹروں اور سٹاف کو بچانے کے لئے مریضوں کی زندگیوں سے کھیلا جانے لگا، مانسہرہ کے محمد علی کے نومولود بچے کو مارنے کے جرم میں دفعہ 322/34کا پرچہ کٹ گیا، پولیس کے چھاپے ڈاکٹروں کی دوڑیں، اس ہسپتال کا عملہ ڈاکٹرز مریضوں کو بکرا سمجھ کر قصائیوں جیسا سلوک کرتے ہیں، ہر روز انکی نا اہلیوں کی وجہ سے کئی جانیں ضائع ہو رہی ہیں، لیکن شکایات کے باوجود حکام کے کانوں تک جوں نہیں رینگتی ، عوامی حلقے، تفصیلات کے مطابق انیس اگست کو ایمرجنسی میں دردزہ میں مبتلا ایک خاتون مریضہ کو لایا گیا ایمرجنسی پر حاضر ڈاکٹر سلیم اختر نے مریضہ کی حالت کو دیکھتے ہوئے اسے فوری طور پر لیبرروم میں بھجوا دیا، وہاں پر انچارچ لیڈی ڈاکٹر بشری منان سٹاف نرس شاہین اور رضوانہ نے عید کے ہلے گلے میں مریضہ کو بغیر علاج معالجہ اور چیک کیے واپس ایمرجنسی میں بھجوا دیا اور ڈاکٹر نے مریضہ کو گھر بھیج دیا، اور 24اگست کو واپس آنے کا کہا ، مریضہ جب دوبارہ آئی تو مریضہ کو لیبر روم میں داخل کر دیا گیا اور رات کو لیڈی ڈاکٹر ساحرہ و دیگر عملہ نے مریضہ کے علاج یا کئیر کو یکسر نظر انداز کرکے نیند کی گولی دے کر سلا دیا، اور اسی بے ہوشی کی حالت میں مریضہ کا ہونا والا بچہ پیدا ہوا، لیکن مسیحائی کا دعوی کرنے والے ڈاکٹروں نے اس معصوم جان کو بچانے کی کوئی کوشش نہ کی کیونکہ وہ خود ہسپتال کو گھر سمجھ کر خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھیں، اس شدید مجرمانہ غفلت کو دیکھتے ہوئے مریضہ کے لواحقین نے فوری طور پر ایم ایس ڈاکٹر نیاز کو اطلاع دی ، ڈاکٹر نیاز نے موقع پر آکر مناظر دیکھے، اور لواحقین کو مطمئن کرنے کے لئے لیڈی ڈاکٹر اور سٹاف کو شوکاز نوٹس بجھوائے ، لیکن اس دوران بچہ فوت ہو چکا تھا، یہ ظلم کی انتہا نہیں تو کیا ہے ، کہ ماں بے ہوش کر دی گئی اور پیدا ہونے والے بچے کو اٹنڈ کرنے والی نرس اور ڈاکٹر خواب خرگوش کے مزے سوتی رہیں۔اس پر بچہ کے لواحقین نے ڈاکٹروں اور سٹاف کے خلاف تھانہ سٹی پولیس کو درخواست دی ، اور پولیس نے اپنی تسلی اور تفتیش کے بعد پرچہ زیر دفعہ 322/24درج کرکے اس جرم کا رتکاب کرنے والے ڈاکٹروں اور نرسنگ سٹاف کو گرفتار کرکے لئے چھاپے مارنے شروع کر دیئے ہیں ایم ایس نے اپنی پہلی رپورٹ میں تسلیم کیا تھا کہ وہ سٹاف کی عدم توجہی ہوئی ہے ، اور اس نے ان کوشوکاز نوٹس جاری کیا لیکن بعد میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے ایم ایس نے پولیس کے سامنے اپنی ہی تیار کردہ انکوائری رپورٹ سے منکر ہو گیا، اس کے باوجود پولیس افسران نے حقائق اور واقعات کی چھان بین کے بعد پرچہ درج کرنے کے احکامات جاری کر دیئے عوامی حلقوں اور شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مذکورہ ڈاکٹروں سٹاف اور دیگر ملوث افراد کے ساتھ ساتھ اعلی متعلقہ افسران کے خلاف سخت سے سخت قانونی کاروائی کی جائے۔