ایبٹ آباد: سیشن جج مانسہرہ جہانزیب شنواری کا اپنے بیٹوں کے ہمراہ نوجوانوں پر مبینہ تشدد۔ ہماری غیراخلاقی ویڈیو بھی بنائی گئی۔ ہمارے خلاف تھانہ میرپور میں بے بنیاد جھوٹا مقدمہ علت نمبر:855 زیر دفعات 365,324,342/34 بھی درج کروادیا گیاہے: متاثرہ نوجوانوں کی گرفتاری سے قبل میڈیا سے بات چیت تفصیلات کے مطابق سانول ولد راجہ محمد اسلم سکنہ سٹیڈیم روڈ جوگن نواں شہراورعمر ولد صدیق نے اپنے وکیل ناصر اسلم ایڈوکیٹ کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ سیشن جج مانسہرہ جہانزیب شنواری کا بیٹاعدنان زیب میرے ایک دوست کی بہن کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ عدنان زیب کے پاس اس لڑکی کی تصاویر تھیں اور عدنان اسے روزانہ راستے میں روک کر بلیک میل کرکے غلط کاری کے مطالبات کرتا تھا۔ اور اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتا تھا۔ میرے دوست نے ہمیں تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ جس پر ہم نے عدنان زیب کو سمجھایا اور اسے مذکورہ لڑکی کو بلیک میل کرنے سے باز رہنے کی تلقین کی۔ جس پر عدنان زیب سیخ پا ہو گیا اور اس نے ہمیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ سانول اور عمر نے بتایا کہ ستائیس اگست کی شام ہم لوگ اپنی گاڑی میں آرہے تھے کہ سیٹھی مسجد کے قریب عدنان زیب نے اپنے والد جہانزیب شنواری اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ہماری گاڑی کو روک لیا اور ہم سب کو مارنا شروع کردیا۔ ہماری گاڑی کے شیشے بھی توڑ دیئے اور مزاحمت پر جہانزیب شنواری اور اس کے بیٹے عدنان زیب نے پستول نکال کر فائرنگ شروع کردی۔ ہمیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد عدنان زیب اپنے والد جہانزیب شنواری اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ہمارے ایک ساتھی کو پکڑ لیا اور ہمیں اغواء کرنے کی کوشش کی گئی جس پر ہم نے بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں اور جہانزیب شنواری اور اس کے بیٹے عدنان زیب کے حملے کی رپورٹ تھانہ میرپور میں دی لیکن پولیس نے کوئی مقدمہ درج نہیں کیا اور نہ ہی جج اور اس کے بیٹے کے خلاف کوئی کارروائی کی۔بلکہ الٹا جہانزیب شنواری کے دباؤ میں آ کر ہم پر اغواء کی ایک جھوٹی اور بے بنیاد ایف آئی آر علت نمبر:855 زیر دفعات 365,324,342/34 درج کر دی ہم ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور کمزور لوگ ہیں ہم نے باوجود اس ظلم کے جہانزیب شنواری سے انصاف کی بجائے پولیس نے ہمیں رحم کی اپیل پر مجبور کر دیا اور اس جعلی کیس کو ختم کرنے کے لئے کہا گیا کہ یہ صرف اور صرف جہانزیب شنواری کی منت اور راضی ہونے پر ہی ختم کیا جا سکتا ہے اور ہم مسلسل اپنے عزیز و اقارب کے ہمراہ جرگوں میں مصروف رہے اور جہانزیب شنواری کو منانے کی کوشش کی اس دوران پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء ملک شیراز اعوان ایڈیشنل سیشن جج جہانزیب شنواری کی ایماء پر ہمیں راضی نامے کے بہانے سیشن جج کی گھر واقع توحید کالونی عقب پی سی ہوٹل لے گیا۔ جہاں ایڈیشنل سیشن جج جہانزیب شنواری، ان کے بیٹے فرحان زیب، فیضان زیب کے علاوہ چند دیگر جج بھی موجود تھے۔ جہانزیب شنواری نے ہماری کنپٹی پر پستول لگا کر ہمیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور ہمارے کپڑے اتار کر ہماری غیر اخلاقی فلم بنائی۔ جہانزیب شنواری کو موقع پر موجود ججز اور دیگر لوگ ایسا کرنے سے منع کرتے رہے اس موقع پر اس جگہ موجود ججز نے اس کی منت سماجت کے علاوہ پاؤں کو بھی ہاتھ لگائے کہ یہ ہمارے وقار اور عدلیہ سے زیب نہیں دیتا آپ نے بچوں کی یہ غیر اخلاقی فلمیں نہ بنائیں لیکن وہ باز نہیں آئے اور انہوں نے اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر ہمیں ننگا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا اور ہماری فلم بھی بنائی۔۔ دونوں نوجوانوں نے بتایا کہ ہم لوگ بے گناہ ہیں۔ سیشن جج جہانزیب شنواری کا بیٹا لڑکیوں کی تصاویر او رفلمیں بنا کر بلیک میل کرتا ہے اور انہیں غلط کاری پر مجبور کرتا ہے۔ ہم نے اس کو منع کیا تھا کہ ایسا نہ کرو۔ جس پر اس نے اپنے باپ کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کروایا ہے۔ دونوں نوجوانوں نے چیف جسٹس آف پاکستان ٗ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اور آئی جی جی کے پی کے سے مطالبہ کیا کہ سیشن جج جہانزیب شنواری نے اپنے اختیارات اور حیثیت کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ درج کروایا ہے۔ ہمارے پاس ان کے بیٹے کے غلط کاموں کے تمام ثبوت موجود ہیں۔ ہمیں انصاف دلایا جائے اور اس کیس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں۔اگر منصفانہ تحقیقات نہ ہوئی تو ہم سپریم کورٹ آف پاکستان کے باہر خود سوزی کر کے ان تمام حقائق سے پردہ اٹھا دینگے ۔
سیشن جج کے بیٹے کی جانب سے درج کروائی جانیوالی ایف آئی آر میں کئی سوالات؟
ایبٹ آباد:سیشن جج مانسہرہ جہانزیب شنواری کے بیٹے عدنان زیب کی جانب سے تھانہ میرپور میں درج کروائی جانیوالی ایف آئی آر میں بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب نہیں دیئے گئے۔ ایف آئی آر کے مطابق عدنان زیب نے پولیس کو بتایا کہ وہ ستارہ مارکیٹ میں آئسکریم کھانے گیا تو اسے اغواء کیا گیا۔ جب ملزمان نے اس سے پوچھ گچھ کی تو اس نے بتایا کہ وہ سیشن جج جہانزیب شنواری کا بیٹا ہے۔ جس پر ملزمان اسے گاڑی میں بٹھا کر لے جا رہے تھے کہ پی سی ہوٹل کے باہر اس کے تمام بھائی کھڑے تھے۔ جس پر اس نے چلتی گاڑی سے آواز لگا کر اپنے بھائیوں کو مدد کے لئے بلایا اور انہوں نے مجھے چھڑایا۔ عدنان زیب نے ایف آئی آر میں یہ نہیں بتایا کہ اگر اسے اغواء کیا گیا یا زبردستی ساتھ لے جایا گیا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ دوسرا جب ملزمان اسے گاڑی میں لے جا رہے تھے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ اس کے تمام بھائی پی سی ہوٹل کے باہر کیوں اور کیسے کھڑے تھے؟ ایف آئی آر کے متن سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے عدنان کے بھائیوں کو پتہ تھا کہ عدنان ابھی پی سی ہوٹل کے باہر سے گاڑی میں گزرے گا اور ہم نے اسے بچانا ہے۔اورانہوں نے اپنے بھائی کو گاڑی میں گزرتادیکھ لیا اور پھر اس کی چیخ پکار پر اسے چھڑا بھی لیا۔ یہ دونوں کہانیاں اپناجھوٹا ہونے کی خود گواہی دے رہی ہیں۔ اور یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اصل بات کو عدنان زیب کی جانب سے ایف آئی آر میں چھپایا گیا ہے ۔ کیونکہ سانول اور عمر کا کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں ہے۔ اور ایبٹ آباد کے لوگ دونوں نوجوانوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں