forest cutting in abbottabad لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
forest cutting in abbottabad لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

10/01/2012

بکوٹ پولیس نے عمارتی لکڑی پنجاب سمگل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی

ایبٹ آباد:تھانہ بکوٹ پولیس نے عمارتی لکڑی پنجاب سمگلر کرنے کی کوشش ناکام بنا دی ٹمبر سمگلر کو حراست میں لیکر ٹرک کو قبضے میں لے لیا گزشتہ روز ایبٹ آباد کاکول کا رہائشی خاور ولد جاوید مزدا ٹرک نمبر 6826 پشاور کے ذریعے بیاڑ کی انتہائی قیمتی لکڑی پنجاب سمگل کر رہا تھا کہ پولیس بکوٹ پولیس کو اطلاع ملی جس پر انھوں نے ناکہ بندی کر کے لکڑی سے بھرا ٹرک بکوٹ کے مقام پر قبضے میں لیکر ڈرائیور کو حراست میں لے لیا بعض ازاں محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کو بلا کر ٹمبر سمگلر پر ایک لاکھ 54ہزارسات سو روپے جرمانہ کیا اور لکڑی قبضے میں لے لی یاد رہے کہ اس سے قبل بھی کوہالہ کے راستے پنجاب کو لکڑی سمگل کرتے ہوئے جیبیں اور ٹرک پکڑے گئے ہیں محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے بکوٹ اور ٹھنڈیانی کے جنگلات ٹمبر سمگلر کاٹ کاٹ کر پنجاب سمگل کر رہے ہیں اور گزشتہ دنوں سملی ڈھیری اور گردنواع سے 150درختوں کی کٹائی کے ثبوت ملے تھے جس پر محکمہ کے چیف نے کاروائی کرتے ہوئے تین اہلکاروں کو معطل کر دیا تھا مگر بدقسمتی سے جس اہلکار نے جنگل کی چیکنگ کی تھی اسے فوری طور پر سرکل ریڈ سے محکمہ کے افسران نے ہٹا دیا کیونکہ وہ ان کے کالے کارتوتوں سے پردہ اٹھا رہا تھا۔

7/21/2012

محکمہ جنگلات کی زیر نگرانی بیرنگلی اور ٹھنڈیانی رینج کے جنگلات کا صفایا

سلطان محمود ڈوگر
ABBOTTABAD: Vehicle of Forest Department Smuggling Wood of Precious Trees.
سرکاری گاڑیوں میں لکڑسمگلنگ۔ جنگل میں آرہ مشینیں نصب ۔ 10 کروڑ سے زائد کے درخت کاٹ لئے گئے

پورے صوبہ خیبرپختونخواہ کے ریونیو کا تقریباً 60 فیصد سے زائد حصہ ہزارہ سے جاتا ہے
ایبٹ آباد میں ٹھنڈیانی، بیرنگلی، گلیات رینج کے جنگلات میں انتہائی قیمتی درخت پائے جاتے ہیں
محکمہ جنگلات کے اعلیٰ افسران اور نچلے عملے کی ملی بھگت سے درختوں کو انتہائی بے دردی سے کاٹ کر تجوریاں بھری جارہی ہیں
ٹمبر مافیا کو بچانے کے لئے ایسے ایسے طریقے اختیار کئے جاتے ہیں کہ جنہیں سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے
محکمہ جنگلات کی اندر سیری بیٹ جو کہ بیرنگلی رینج ٹھنڈیانی سے شروع ہوتی ہے۔ ان علاقوں کے جنگلات میں انتہائی قیمتی درخت ہیں
محکمہ جنگلات کے اعلیٰ افسران اور نچلے عملے کی مدد سے ان دونوں جنگلات میں سرعام آرہ مشینیں نصب ہیں
مقامی لوگوں کے مطابق یہ آرہ مشینیں پچھلے کئی سالوں سے کام کر رہی ہیں۔ یہ آرہ مشینیں چوبیس گھنٹے درختوں کی کٹائی میں مصروف رہتی ہیں
بیرنگلی، ٹھنڈیانی رینج میں دیگر جنگلات کی طرح مالکانہ، سرکاری جنگلات ہیں
محکمہ جنگلا ت کے ذرائع کے مطابق ان جنگلات سے 10 کروڑ روپے سے زائد کی لکڑ کی کٹائی کی گئی اور پھر اسے قانونی حیثیت کا درجہ دیا گیا
مقامی لوگوں کے مطابق محکمہ جنگلات کے افسران سے 100 فٹ لکڑ کاٹنے کا پرمٹ لیا جاتا ہے۔ جبکہ موقع پر 1000 فٹ لکڑ کاٹی جاتی ہے
جنگلات کی کٹائی میں کوہستانی اور مقامی لوگ ملوث ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے۔ گل زرین نامی کوہستانی ٹھیکیدار اپنی لیبر لگا کر آرڈر پر درختوں کو کاٹتا ہے


ABBOTTABAD: Forest Cutting in Thandiyani Range.
ہزارہ ڈویژن قدرتی دولت سے مالا مال ڈویژن ہے۔ پورے صوبہ خیبرپختونخواہ کے ریونیو کا تقریباً 60 فیصد سے زائد حصہ ہزارہ سے جاتا ہے۔ ہزارہ ڈویژن ٹھنڈا علاقہ ہونے اور خوبصورت جنگلات کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ ایبٹ آباد ہزارہ ڈویژن کا دل ہے۔ اور ایبٹ آباد میں ٹھنڈیانی، بیرنگلی، گلیات رینج کے جنگلات میں انتہائی قیمتی درخت پائے جاتے ہیں۔ ایبٹ آباد ہزارہ ڈویژن کا صدر مقام اور تیزی سے ترقی کرتا شہر ہے۔ پیسے کی حوص نے لوگوں کو اچھے اور برے کی تمیز سے لاپرواہ کردیا ہے۔ نفسانفسی کی وجہ سے لوگ راتوں رات امیر بننے کے لئے شارٹ کٹ استعمال کررہے ہیں۔ پیسے کی اس دوڑ میں سرکاری محکموں کے افسران اور اہلکار بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ جنگلات جو کہ قدرتی دولت ہیں۔ محکمہ جنگلات کے اعلیٰ افسران اور نچلے عملے کی ملی بھگت سے درختوں کو انتہائی بے دردی سے کاٹ کر تجوریاں بھری جارہی ہیں۔ ٹمبر مافیا کو بچانے کے لئے ایسے ایسے طریقے اختیار کئے جاتے ہیں کہ جنہیں سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
بحیثیت صحافی میں نے ایبٹ آباد کے جنگلات کی کٹائی پر گزشتہ بارہ سالوں میں سینکڑوں رپورٹیں لکھیں۔ ان رپورٹس کے نتیجے میں مجھے نہ صرف دھمکیاں ملیں بلکہ ایبٹ آباد پولیس کی مدد سے میرے خلاف 2004ء میں تھانہ میرپور میں جھوٹا مقدمہ بھی درج کروانے کی کوشش کی گئی۔میرا قصور صرف یہ تھا کہ میں نے اخبار میں ایک ایسی لکڑ کی نشاندہی کردی تھی جو کہ ایک گودام میں پڑی ہوئی تھی۔ اور یہ لکڑی ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے منگوائی ہوئی تھی۔ اس لکڑی کو محکمہ جنگلات نے قبضہ میں کرلیا۔ اور پانچ لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ وصول کیا گیا۔یہ جو رپورٹ شائع کی جا رہی ہے اگر یہ رپورٹ شائع نہ کی جاتی تو اس کے بدلے مجھے اور روزنامہ پائن کوبہت سے فائدے یقیناًپہنچ سکتے ہیں۔ لیکن ہم لوگ عارضی فائدوں کے لئے اپنی دنیا اور آخرت کو خراب نہیں کرسکتے۔
محکمہ جنگلات کی اندر سیری بیٹ جو کہ بیرنگلی رینج ٹھنڈیانی سے شروع ہوتی ہے۔ ان علاقوں کے جنگلات میں انتہائی قیمتی درخت ہیں۔ تعلیم کی کمی اور پیسے کی لالچ نے لوگوں کو اندھا بنا دیا ہے۔ محکمہ جنگلات کے اعلیٰ افسران اور نچلے عملے کی مدد سے ان دونوں جنگلات میں سرعام آرہ مشینیں نصب ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ آرہ مشینیں پچھلے کئی سالوں سے کام کر رہی ہیں۔ یہ آرہ مشینیں چوبیس گھنٹے درختوں کی کٹائی میں مصروف رہتی ہیں۔ یہ آرہ مشینیں چھوٹے سائز کی ہیں۔ ان میں پٹرول سے چلنے والا انجن لگا ہوتا ہے۔دوسے چار آدمی اس آرہ مشین کو اٹھا کر باآسانی غائب ہو سکتے ہیں۔ یہ آرہ مشین چھوٹا سائز ہونے کی وجہ سے کسی بھی جگہ آسانی سے لے جائی جا سکتی ہے۔ اور وہاں فٹ کرکے اس کی مدد سے درختوں کو کاٹنے کے بعد منٹوں میں نگ وغیرہ بنائے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ درخت کو کاٹنے کے بعد اس مسئلہ اس کے نگ بنا کر انہیں سڑک تک پہنچانا ہوتا ہے۔ اور یہ ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ راستہ دشوار گزار ہونے اور لکڑی کو باآسانی سڑک تک پہنچانے کے لئے چھوٹے سائز کی آرہ مشینوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ آرہ مشینیں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اور ان آرہ مشینوں کی مدد سے درختوں کو کاٹ کر تیار کی جانے والی لکڑی بھی واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ محکمہ جنگلات کے کنزر ویٹر، متعلقہ رینج آفیسر، پولیس افسران ، ضلعی انتظامیہ کو یہ سب کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔
Abbottabad: Wood of Precious Trees have been smuggling in Thandiyani Forest Range.
مقامی لوگوں کے مطابق بیرنگلی، ٹھنڈیانی رینج میں دیگر جنگلات کی طرح مالکانہ، سرکاری جنگلات ہیں۔ ان جنگلات میں درختوں کی غیر قانونی کٹائی میں ریٹائر فارسٹر اور حویلیاں کا ایک ٹھیکیدار ملوث ہے۔ محکمہ جنگلا ت کے ذرائع کے مطابق ان جنگلات سے 10 کروڑ روپے سے زائد کی لکڑ کی کٹائی کی گئی اور پھر اسے قانونی حیثیت کا درجہ دیا گیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق محکمہ جنگلات کے افسران سے 100 فٹ لکڑ کاٹنے کا پرمٹ لیا جاتا ہے۔ جبکہ موقع پر 1000 فٹ لکڑ کاٹی جاتی ہے۔ اور یہ تمام قیمتی درخت مالکان کاٹ رہے ہیں۔ اس قدرتی دولت کو ختم کرنے کے لئے JFMC والوں نے ذاتی حیثیت سے سڑکیں تعمیر کیں۔ لوگوں کے مطابق بیرنگلی اور ٹھنڈیانی رینج کے جنگلات کا صفایا کرنے میں چار آدمیوں کاگروہ ملوث ہے۔ مین روڈ پر آرہ مشین لگی ہوئی ہے۔ لوگوں کے مطابق دن کے اجالے میں درختوں کو کاٹا جاتا ہے اور پھر رات کی تاریکی میں لکڑی صوبے کے دیگر اضلاع کے علاوہ، پنجاب، سندھ، کراچی اور پٹن مظفر آباد تک سمگل کی جاتی ہے۔
روزنامہ پائن کی ٹیم جب واپس آرہی تھی تو شام پانچ بجے کے قریب ٹھنڈیانی سے تھوڑا پہلے قائم فارسٹ چیک پوسٹ سے چند کلومیٹر پہلے رینج آفیسر کی سرکاری جیپ نمبر: CEC 85-77لکڑی سے لدی ہوئی کھڑی تھی۔ اس وقت گاڑی میں کوئی بھی نہیں تھا۔ جنگل میں سڑک کنارے لکڑی سے بھری سرکاری جیپ دیکھ کر ہم نے سوچا ’’ یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے‘‘؟۔ ہم نے جیپ کے پاس کافی دیر انتظار کیا۔ ایک ڈرائیور آیا اس سے ہم نے کہا کہ ہمیں گھر کی ضرورت کے لئے لکڑی چاہئے۔ تو اس نے ہمیں مکمل طور پر گائیڈ کیا کہ لکڑی کیسے ملے گی۔ ہم نے اس سے کہا کہ یہ جو لکڑی سرکاری جیپ میں لوڈ ہے اگر یہ ہمیں دے دو تو ہم ابھی نقد ادائیگی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس پر ڈرائیور نے کہا کہ یہ لکڑی رینج آفیسر صاحب نے ایک آفیسر کے لئے منگوائی ہے۔ رات کے وقت یہ لکڑی ایبٹ آباد میں پہنچانی ہے۔ یہ لکڑی آپ کو نہیں مل سکتی ہے۔
اس غیر قانونی لکڑ کی کٹائی میں کیا رینج آفیسر بھی ملوث ہے؟ اس سوال کے جواب میں مقامی لوگوں نے بتایا کہ ان جنگلات کا رینج آفیسر ایک ایماندار آفیسر ہے۔ اور ان کی تعیناتی کے بعد جنگل میں غیر قانونی کٹائی پر کافی کنٹرول ہوا ہے۔ انہوں نے کئی لوگوں کو پکڑا ہے اور جرمانے بھی کئے ہیں۔ جنگل میں درختوں کی کٹائی کے لئے آرہ مشینیں کس کے حکم پر نصب کی گئی ہیں؟ اور رینج آفیسر ان مشینوں کو ختم کرنے کے لئے کارروائی کیوں نہیں کر رہے ؟ اس سوال کے جواب میں مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہ رینج آفیسر کااپنا معاملہ ہے۔ اس ضمن میں جب متعلقہ رینج آفیسر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں کسی بھی جنگل میں کوئی آرہ مشین نصب نہیں ہے۔ اگر کوئی آرہ مشین نصب ہے تووہ دکھائیں ۔ ان کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ میں رینج آفیسر سے گزارش کرونگا کہ اس رپورٹ میں مذکورہ آرہ مشینوں کی تصاویر ہیں۔ یہ آپ کے علاقے کے جنگل میں نصب ہیں۔ اور دن کے وقت بھی چل رہی ہیں۔ اگر آپ کو یہ آرہ مشینیں دن کے وقت نظر نہیں آرہی ہیں تو مہربانی کرکے اب ان کو اچھی طرح دیکھ لیں اور ان آرہ مشینوں کو قبضہ میں لے کر میڈیا کو دکھائیں۔ جھوٹی تسلیاں اور خانہ پری نہ کریں۔
ٹھنڈیانی اور بیرنگلی رینج میں درختوں کی غیر قانونی کٹائی کے حوالے سے کئی مرتبہ کنزر ویٹر جنگلات کے دفتر کے بھی چکر لگائے گئے۔ لیکن کنزرویٹر صاحب بہت زیادہ مصروف تھے۔ ان کے پی اے نے انہیں کئی مرتبہ بتایا ۔ ہم نے بھی کئی مرتبہ چکر لگائے لیکن ہمیں شرف ملاقات حاصل نہ ہوسکا۔
مقامی لوگوں کے مطابق ان جنگلات کی کٹائی میں کوہستانی اور مقامی لوگ ملوث ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے۔ گل زرین نامی کوہستانی ٹھیکیدار اپنی لیبر لگا کر آرڈر پر درختوں کو کاٹتا ہے۔ ان جنگلات کی کٹائی میں کوہستانیوں کا اہم کردار ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق درختوں کی کٹائی کے بعد رات کے وقت ڈاٹسن گاڑیوں اور جیپوں میں لکڑی کو لوڈ کرکے دوسرے علاقوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق جتنی بھی گاڑیاں رات کو لکڑی سمگل کرتی ہیں یہ تمام گاڑیاں پولیس چوکی چمیالی میں کھڑی کی جاتی ہیں۔ نواں شہر اور بکوٹ پولیس کو بھتوں کے عوض لکڑ سمگل کی جاتی ہے۔ کیونکہ اگر پولیس کو حصہ نہ دیا جائے تو پھر پولیس تنگ کرتی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ٹمبر سمگلروں کے پاس انتہائی جدید اسلحہ کلاشنکوفیں بھی ہوتی ہیں۔ اگر پولیس یا محکمہ جنگلات کے لوگ گڑبڑ کرنے کی کوشش کریں تو پھر فائرنگ شروع کردی جاتی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ریٹ بڑھانے کی بات کی جاتی ہے یا زیادہ پیسوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
محکمہ جنگلات اورپولیس کے افسران ، اہلکاروں اور ٹمبر مافیا سے اپیل:
عوام الناس نے محکمہ جنگلات، پولیس کے افسران، اہلکاروں اور ٹمبر مافیا سے کہا ہے کہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے ایبٹ آباد میں موسمی تبدیلیاں خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہیں۔ قیمتی درختوں کے کاٹنے کی وجہ سے اب گرمی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سردیوں میں برف باری برائے نام ہوتی ہے۔ درختوں کے کاٹنے کی وجہ سے خوبصورت پہاڑ چٹیل میدانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان درختوں کی کٹائی کے عوض جو لوگ حرام کا پیسہ کھا رہے ہیں۔ یہ پیسہ ان لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت میں عذاب بنے گا۔ لوگوں نے اپیل کی ہے کہ خدا کے لئے ان درختوں کی غیر قانونی کٹائی کو روکیں اور جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے ڈر جائیں۔ یہ دولت ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔