ایبٹ آباد:پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ ہم سب کو برابری کی سطح پر انصاف کی فراہمی آئینی اور دینی فریضہ سمجھتے ہیں اور آئین اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے لئے کسی حد تک جا سکتے ہیں خیبر پختونخوا میں انصاف کی فراہمی کے لئے صوبائی حکومت کو ’’ موبائل کورٹس بل ‘‘ منظوری کے لئے بھجوایا گیا ہے لیکن نا معلوم وجوہ کی بنا پر اس میں تاخیر ہو رہی ہے کیونکہ وہ بل ابھی تک اسمبلی کے پاس نہیں آیا اس بل کی منظوری سے عدالتوں پر 40 فیصد بوجھ کم ہو جائے گا اور لوگوں کو گھر کی دہلیز پر انصاف فراہم ہو گا۔یہ باتیں انہوں نے ایبٹ آباد ہائی کورٹ میں دو نئے تعمیر شدہ کورٹ رومز کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔تقریب سے ہائی کورٹ بار ایبٹ آباد کے صدر سعید اختر نے خطاب کرتے ہوئے ہزارہ بھر کی بار کو درپیش مسائل کی نشاندہی کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاشرے سے کرپشن کے خاتمہ کے لئے وکلاء ہماری مدد کریں دوسرے محکموں اور شعبوں سے کرپشن کی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن عدلیہ میں کرپشن ناقابل معافی جرم ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں آئین اور قانون کے مبطابق عام آدمی کو انصاف فراہم کرنا ہے جس شخص کے خلاف فیصلہ ہو وہ ناراض ضرور ہوتا ہے تا ہم عام آدمی اور بڑے لوگوں کی روش میں فرق ہے لیکن ہم نے رول آف لاء کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے تب جا کر سب کو مساوی انصاف فراہم ہو سکے گا۔ملک میں قانون اور آئین کی عمل داری اور پاسداری کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ اعلی عدلیہ نے بہت سے سخت فیصلے کئے ہیں جو افسروں اور حکمرانوں کو اچھے نہیں لگتے تا ہم میں واضح کرتا ہوں کہ اعلی عدلیہ کے دل و دماغ میں کسی کے خلاف کوئی تعصب یا ذاتی عباد نہیں۔انہوں نے کہاکہ وکلاء کا معاشرے میں ایک با عزت مقام ہے اسی طرح بینچ کے ساتھ ان کا صدیوں پرانا رشتہ ہے لیکن 2007 میں اس رشتے نے نیا روپ اختیار کیا جب عدلیہ پر ایک ڈکٹیٹر نے سب خون مارا تو ملک بھر کی وکلاء برادری جس میں ہزارہ کے وکلاء بھی شامل تھے اس شخص کے خلاف ڈٹ گئے اور صف اول کا کردار ادا کیا۔انہوں نے جوڈیشری سے کہا کہ وہ وکلاء کو صبر و تحمل اور برداشت کے ساتھ سنیں اور اپنا فیصلہ سنائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وکلاء کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ طوالت سے بچیں اور آئین اور قانون کے خلاف طرز عمل اختیار نہ کریں ۔خیبر پختونخوا میں جوڈیشل اکیڈمی کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشری اور وکلاء کی ٹریننگ کے لئے قائم کردہ اس اکیڈمی کی وہ خود ذاتی طور پر نگرانی کرتے ہیں اس میں تمام وکلاء اور مجسٹریٹوں کو میرٹ کے مطابق ریجن وائز شامل کیا جاتا ہے مسائل کے جواب میں چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ آج جو مسائل یہاں پیش کئے گئے ہیں انہیں ترجیح بنیادوں پر حل کیا جائے گا ۔ایبٹ آباد ہائی کورٹ میں ایک جدید بار روم قائم کیا جائے گا۔انہوں نے ہدایت کی کہ ایرا ہائی کورٹ کے زیر تعمیر منصوبے کو فوری طور پر مکمل کرے کیونکہ اس میں پہلے ہی کافی تاخیر ہو چکی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں